تیسری بار وزیراعظم نہیں بنوں گا

اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے بیان کو بے باک اور خودپسندانہ قرار دے رہی ہیں
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی کامیابی کی صورت میں تیسری بار وزارتِ عظمٰی کا عہدہ نہیں سنبھالیں گے۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں وہ مزید پانچ سال کے لیے پارلیمان کی خدمت کریں گےاور اس کے بعد ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ چھوڑ دیں گے۔
ڈیوڈ کیمرون کا خیال ہے کہ وزیرِداخلہ ٹیریسا مے، چانسلر جورج اوزبورن اور لندن کے مئیر بورس جانسن کے نام ممکنہ کامیاب امیدواروں میں شامل ہوں گے۔
لیبر پارٹی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مغرور، جبکہ لیبرل ڈیموکریٹس بے باک کہتی ہیں۔
بی بی سی کے سیاسی امور کے نائب مدیر جیمز جینڈل کو دیے گئے اس انٹرویو میں ڈیوڈ کیمرون نے کنزرویٹو پارٹی کے تینوں رہنماؤں کو ’عظیم لوگ‘ کہہ کر پکارا اور کہا کہ یہ شخصیات بہت قابل ہیں۔
جیمز لینڈل کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کی مہم کے لیے وزیراعظم کا یہ بیان ایک برقی رو کی مانند ہو گا۔
اس سے نہ صرف برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی قیادت میں طویل مقابلے بازی کا آغاز ہو گا بلکہ اس میں ووٹروں کے لیے بھی پیغام ہے جو موجودہ وزیراعظم کی حمایت کرتے ہیں۔
لیکن یہ ایک طرح سے جوا بھی ہے کیونکہ اس میں یہ خدشہ بھی ہے کہ چند ووٹر یہ سمجھیں گے وزیراعظم کیمرون متکبر ہیں اور وہ پہلے سے انتخابات میں نتائج کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
انٹرویو کے دوران وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملک کی معاشی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا ’آدھا کام‘ کر لیا ہے۔ جبکہ وہ تعلیم اور عوامی بہبود کی اصلاحات کی صورت میں اپنے کام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب نئی اور اچھی قیادت آئے گی اور کنزرویٹو پارٹی میں کچھ عمدہ شخصیات موجود ہیں۔
’آپ جانتے ہیں یہاں قابل لوگوں کی بہتات ہے، میرے اردگرد بہت اچھے لوگ موجود ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں کہہ چکا ہوں کہ میں دوسری مدت کے اختتام تک موجود رہوں گا مگر میرا خیال ہے کہ اس سےآگے نئی قیادت کا وقت ہو گا۔
’دو مدتیں تو نہایت عمدہ ہیں مگر تیسری شاید کچھ زیادہ ہو جائے۔‘
کیا آپ نے ایسی صورت حال کا تصور کیا ہے کہ وہ انتخابات میں ناکام ہو جائیں تو پارلیمان سے باہر زندگی کیسی ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں ڈیوڈ کیمرون نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ بطور ممبر پارلیمینٹ منتخب ہو جائیں گے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک دن آئے گا جب انھیں اپنے ’کرنے کےلیے کچھ اور‘ تلاش کرنا ہو گا۔
لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے تیسری مدت کے لیے اپنے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے کے معاملے پر بول کر برطانوی عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
شیڈو وزیرِحارجہ ڈگلس الیگزینڈر نے، جو اپنی جماعت کی جانب سے عام انتخابات کے لیے رابطہ کار کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، 2020 کے عام انتخابات میں عوام کو رائے کا موقع دیے جانے سے پہلے وزیراعظم کے بیان کو خودپسندانہ کہا ہے۔
برطانیہ کی انڈی پینڈینس پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کیمرون کا یہ اعلان یورپ کے معاملے پر کنزرویٹیو پارٹی میں طویل عرصے سے منتظر خانہ جنگی کی وجہ بنے گا۔
عوام کی رائے سے پہلے وزیراعظم کا بیان خود پسندانہ ہے: ڈگلس الیگزینڈر
ادھر لیبرل ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ ڈیوڈ کیمرون کا بیان ناقابلِ یقین حد تک گستاخانہ ہے۔
لیکن کنزرویٹیو پارٹی کے بورس جانسن کی نظر میں وزیراعظم کے بیان کو لوگ بلا وجہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔
بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کنزرویٹو پارٹی کے چیف ویپ مچل گوو نے کہا کہ وزیراعظم سے ایک براہ راست سوال کیا گیا جس کا انھوں نے دیانت داری سے جواب دیا۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں رواں سال مئی میں عام انتخابات ہوں گے۔
اِن افواہیوں کے گردش کرنے کے بعد کہ اب کوئی اور وزیراعظم کے عہدے پر آئے گا، سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے خود ہی 2005 کے انتخابات سے قبل چوتھی بار وزیراعظم بننے سے انکار کیا تھا۔
ان کی جماعت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد گورڈن براؤن وزیراعظم بنے جنھوں نے 2007 تک ملک کی قیادت کی۔
کنزرویٹیو جماعت کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے 1987 کے انتخابات میں کامیابی کے بعدتیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا تاہم انھوں نے 1990 میں استعفیٰ دیا اور ان کی جگہ جان میجر آئے۔
موجودہ حکومت بھی اسی جماعت کی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے 2005 میں کامیابی حاصل کی اور اپوزیشن لیڈر بنے۔ 2010 میں ان کی جماعت نے لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کی اور وہ وزیراعظم بنے۔
بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے اپنی بڑی بیٹی نینسی کا ذکر بھی کیا جو بی بی سی کے معطل ہونے والے براڈکاسٹر جریمی کلارکسن کی بحالی کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔
وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ’اگر کلارکسن کو بحال نہ کیا گیا تو وہ بھوک ہڑتال کر دیں گی۔ میں نے اسے بتایا کہ ضروری نہیں کہ اس معاملے میں مداخلت فائدہ مند ہو۔ اور وہ یقیناً گاندھی نہیں ہے۔‘
ڈیوڈ کیمرون نے اپنی اہلیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سمینتھا انتحابی مہم کے دوران ان کے لیے ’درستگی کے پیمانے‘ کا کام کرتی ہیں۔